Author:مرزا غالب
Appearance
مرزا غالب (1797 - 1869) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک
- دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
- ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
- کوئی امید بر نہیں آتی
- یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
- دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
- بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
- ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
- بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
- نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
- رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
- حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
- درد منت کش دوا نہ ہوا
- عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
- آ کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
- ابن مریم ہوا کرے کوئی
- آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
- نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
- مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
- عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
- دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
- عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
- غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
- پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
- مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت
- آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
- نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
- ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
- سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
- کسی کو دے کے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو
- ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں
- دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا
- رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے
- دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
- پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
- دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
- یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
- درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
- آبرو کیا خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں
- جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
- ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
- جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
- کوئی دن گر زندگانی اور ہے
- وہ آ کے خواب میں تسکین اضطراب تو دے
- گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
- ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
- تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
- ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
- وہ فراق اور وہ وصال کہاں
- میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
- آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازار دوست
- کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
- لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور
- حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
- کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
- چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے
- کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
- نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
- زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ
- گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
- دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
- عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
- کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آ جائے ہے مجھ سے
- اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
- گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو
- ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
- دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہئے
- نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
- کب وہ سنتا ہے کہانی میری
- بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے
- غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے
- تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
- دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا
- دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے
- دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
- شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا
- حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
- گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
- عشق تاثیر سے نومید نہیں
- آمد سیلاب طوفان صداۓ آب ہے
- کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں
- مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے
- اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ
- افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
- بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
- بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
- دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
- فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
- ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
- سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے
- کہوں جو حال تو کہتے ہو مدعا کہیے
- بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر در و دیوار
- غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
- ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
- عرض ناز شوخیٔ دنداں برائے خندہ ہے
- باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
- شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
- دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں
- اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گداۓ بے سر و پا ہیں
- ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
- در خور قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
- ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں
- میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں
- جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
- از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئنہ
- نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
- مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
- کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
- کیونکر اس بت سے رکھوں جان عزیز
- جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
- جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
- دل لگا کر لگ گیا ان کو بھی تنہا بیٹھنا
- گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ
- قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
- منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
- یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا
- گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
- بہ نالہ حاصل دل بستگی فراہم کر
- نقش ناز بت طناز بہ آغوش رقیب
- زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمک
- تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
- برشکال گریۂ عاشق ہے دیکھا چاہیے
- ہر قدم دورئ منزل ہے نمایاں مجھ سے
- ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا
- غم دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
- بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
- صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے
- تو دوست کسو کا بھی ستم گر نہ ہوا تھا
- قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشت قیس میں آنا
- واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
- ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں
- چاک کی خواہش اگر وحشت بہ عریانی کرے
- دیکھ کر در پردہ گرم دامن افشانی مجھے
- چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
- جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
- بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش
- وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
- ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
- سرگشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے
- پھر اس انداز سے بہار آئی
- پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
- محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
- لو ہم مریض عشق کے بیمار دار ہیں
- نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
- رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
- کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ مو آئے
- ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
- حضور شاہ میں اہل سخن کی آزمائش ہے
- گر نہ اندوہ شب فرقت بیاں ہو جائے گا
- شبنم بہ گل لالہ نہ خالی ز ادا ہے
- نوید امن ہے بیداد دوست جاں کے لیے
- گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا
- مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے
- نہ پوچھ نسخۂ مرہم جراحت دل کا
- تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو
- ہے کس قدر ہلاک فریب وفائے گل
- مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ
- تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
- ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر
- خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
- ہے وصل ہجر عالم تمکین و ضبط میں
- جب بہ تقریب سفر یار نے محمل باندھا
- سرمۂ مفت نظر ہوں مری قیمت یہ ہے
- لوں وام بخت خفتہ سے یک خواب خوش ولے
- حریف مطلب مشکل نہیں فسون نیاز
- کعبہ میں جا رہا تو نہ دو طعنہ کیا کہیں
- ہے سبزہ زار ہر در و دیوار غم کدہ
- پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نا رسائی کا
- جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغ جگر ہدیہ
- شب کہ برق سوز دل سے زہرۂ ابر آب تھا
- تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے
- حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو
- لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے
- لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
- غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
- عہدے سے مدح ناز کے باہر نہ آ سکا
- گلشن کو تری صحبت از بس کہ خوش آئی ہے
- مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
- لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر
- نالہ جز حسن طلب اے ستم ایجاد نہیں
- جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع
- مجھ کو دیار غیر میں مارا وطن سے دور
- نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
- کیوں نہ ہو چشم بتاں محو تغافل کیوں نہ ہو
- ہوں میں بھی تماشائی نیرنگ تمنا
- فارغ مجھے نہ جان کہ مانند صبح و مہر
- رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف
- حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
- مت مردمک دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
- خطر ہے رشتۂ الفت رگ گردن نہ ہو جاوے
- کوہ کے ہوں بار خاطر گر صدا ہو جائیے
- گرم فریاد رکھا شکل نہالی نے مجھے
- سیاہی جیسے گر جائے دم تحریر کاغذ پر
- شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا
- رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے
- سراپا رہن عشق و نا گزیر الفت ہستی
- گلشن میں بندوبست بہ رنگ دگر ہے آج
- غافل بہ وہم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
- جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی
- قطرۂ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا
- وہ مری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا
- حسن بے پروا خریدار متاع جلوہ ہے
- زمانہ سخت کم آزار ہے بہ جان اسدؔ
- مستی بہ ذوق غفلت ساقی ہلاک ہے
- نہ لیوے گر خس جوہر طراوت سبزۂ خط سے
- شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
- کرے ہے بادہ ترے لب سے کسب رنگ فروغ
- شب خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا
- مری ہستی فضاۓ حیرت آباد تمنا ہے
- جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
- لب خشک در تشنگی مردگاں کا
- ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں
- پا بہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد
- نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے در خور مرے تن میں
- نشہ ہا شاداب رنگ و ساز ہا مست طرب
- جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
- روندی ہوئی ہے کوکبۂ شہریار کی
- صفاۓ حیرت آئینہ ہے سامان زنگ آخر
- رخ نگار سے ہے سوز جاودانی شمع
- واں اس کو ہول دل ہے تو یاں میں ہوں شرم سار
- سیماب پشت گرمی آئینہ دے ہے ہم
- یاد ہے شادی میں بھی ہنگامۂ یا رب مجھے
- رحم کر ظالم کہ کیا بود چراغ کشتہ ہے
- وسعت سعی کرم دیکھ کہ سر تا سر خاک
- ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
- تپش سے میری وقف کشمکش ہر تار بستر ہے
- نکوہش ہے سزا فریادی بے داد دلبر کی
- لب عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی
- ہجوم نالہ حیرت عاجز عرض یک افغاں ہے
- ز بسکہ مشق تماشا جنوں علامت ہے
- ہجوم غم سے یاں تک سرنگونی مجھ کو حاصل ہے
- کارگاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
- جس جا نسیم شانہ کش زلف یار ہے
- پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب
رباعی
[edit]- یاران نبی میں تھی لڑائی کس میں
- یاران نبی سے رکھ تولّا باللہ
- یاران رسول یعنی اصحاب کبار
- ہے خلق حسد قماش لڑنے کے لیے
- ہیں شہ میں صفات ذوالجلالی باہم
- ہم گرچہ بنے سلام کرنے والے
- ہر چند کہ دوستی میں کامل ہونا
- کہتے ہیں کہ اب وہ مردم آزار نہیں
- مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
- گلخن شرر اہتمام بستر ہے آج
- گر جوہر امتیاز ہوتا ہم میں
- شب زلف و رخ عرق فشاں کا غم تھا
- سامان ہزار جستجو یعنی دل
- سامان خور و خواب کہاں سے لاؤں
- رقعے کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے
- دیکھ وہ برق تبسم بس کہ دل بیتاب ہے
- دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالبؔ
- دل سوز جنوں سے جلوہ منظر ہے آج
- دل سخت نژند ہوگیا ہے گویا
- دل تھا کہ جو جان درد تمہید سہی
- حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
- جن لوگوں کو ہے مجھ سے عداوت گہری
- بے گریہ کمال ترجبینی ہے مجھے
- بھیجی ہے جو مجھ کو شاہ جمجاہ نے دال
- بعد از اتمام بزم عید اطفال
- اے کثرت فہم بے شمار اندیشہ
- اے کاش بتاں کا خنجر سینہ شگاف
- اے منشی خیرہ سر سخن ساز نہ ہو
- اے روشنی دیدہ شہاب الدین خاں
- اک گرم آہ کی تو ہزاروں کے گھر جلے
- ان سیم کے بیجوں کو کوئی کیا جانے
- اصحاب کو جو کہ ناسزا کہتے ہیں
- اس رشتے میں لاکھ تار ہوں بلکہ سوا
- آتش بازی ہے جیسے شغل اطفال
مرثیہ
[edit]قصیدہ
[edit]- ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام
- کرتا ہے چرخ روز بصد گونہ احترام
- ملاذ کشور و لشکر پناہ شہر و سپاہ
- مرحبا سال فرخی آئیں
- گنی ہیں سال کے رشتے میں بیس بار گرہ
- صبح دم دروازۂ خاور کھلا
- سازیک ذرہ نہیں فیض چمن سے بے کار
- دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
- درمدح شاہ
- بہ گمان قطع زحمت نہ دو چار خامشی ہو
سہرا
[edit]- خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
- چرخ تک دھوم ہے کس دھوم سے آیا سہرا
- ہم نشیں تارے ہیں اور چاند شہاب الدین خاں
قطعہ
[edit]- ہے چار شنبہ آخر ماہ صفر چلو
- ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی
- ہوئی جب میرزا جعفر کی شادی
- ہندوستان کی بھی عجب سر زمین ہے
- ہند میں اہل تسنن کی ہیں دو سلطنتیں
- ہزار شکر کہ سید غلام بابا نے
- کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
- نہ پوچھ اس کی حقیقت حضور والا نے
- نصرت الملک بہادر مجھے بتلا کہ مجھے
- منظور ہے گزارش احوال واقعی
- مقام شکر ہے اے ساکنان خطہ خاک
- مسلمانوں کے میلوں کا ہوا قل
- مژدہ اے رہروان راہ سخن
- گڑگانویں کی ہے جتنی رعیت وہ یک قلم
- گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں
- گئے وہ دن کہ نادانستہ غیروں کی وفاداری
- سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے
- سہل تھا مسہل و لے یہ سخت مشکل آپڑی
- سلیم خاں کہ وہ ہے نور چشم واصل خاں
- دیکھنے میں ہیں گرچہ دو پر ہیں یہ دونوں یار ایک
- خوشی ہے یہ آنے کی برسات کے
- خجستہ انجمن طوے میرزا جعفر
- جب کہ سید غلام بابا نے
- اے شہنشاہ فلک منظر بے مثل و نظیر
- اے شہنشاہ آسماں اورنگ
- افطار صوم کی کچھ اگر دستگاہ ہو
- اس کتاب طرب نصاب نے جب
- بس کہ فعال ما یرید ہے آج
سلام
[edit]مثنوی
[edit]مخمس
[edit]
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |