جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع
Appearance
جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع
چرخ وا کرتا ہے ماہ نو سے آغوش وداع
شمع سے ہے بزم انگشت تحیر در دہن
شعلۂ آواز خوباں پر بہ ہنگام سماع
جوں پر طاؤس جوہر تختہ مشق رنگ ہے
بسکہ ہے وہ قبلۂ آئینہ محو اختراع
رنجش حیرت سرشتاں سینہ صافی پیشکش
جوہر آئینہ ہے یاں گرد میدان نزاع
چار سوئے دہر میں بازار غفلت گرم ہے
عقل کے نقصاں سے اٹھتا ہے خیال انتفاع
آشنا غالبؔ نہیں ہیں درد دل کے آشنا
ورنہ کس کو میرے افسانے کی تاب استماع
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |