Jump to content

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور

From Wikisource
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور
by مرزا غالب
298916لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اورمرزا غالب

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور

مٹ جائےگا سَر، گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور

آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ “جاؤں؟”
مانا کہ ھمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور

جاتے ہوئے کہتے ہو “قیامت کو ملیں گے”
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور

تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور

تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور

مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور

گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور

ناداں ہو جو کہتے ہو کہ “کیوں جیتے ہیں غالبؔ”
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.