گنی ہیں سال کے رشتے میں بیس بار گرہ
گنی ہیں سال کے رشتے میں بیس بار گرہ
ابھی حساب میں باقی ہیں سو ہزار گرہ
گرہ کی ہے یہی گنتی کہ تا بروز شمار
ہوا کرے گی ہر اک سال آشکار گرہ
یقین جان برس گانٹھ کا جو تاگا ہے
یہ کہکشاں ہے کہ ہیں اس میں بے شمار گرہ
گرہ سے اور گرہ کی امید کیوں نہ بڑھے
کہ ہر گرہ کی گرہ میں ہیں تین چار گرہ
دکھا کے رشتہ کسی جوتشی سے پوچھا تھا
کہ دیکھ کتنی اٹھا لاے گا یہ تار گرہ
کہا کہ چرخ پہ ہم نے گنی ہیں نو گرہیں
جو یاں گنیں گے تو پاویں گے نو ہزار گرہ
خود آسماں ہے مہا راؤ راجہ پر صدقے
کرے گا سینکڑوں اس تار پر نثار گرہ
وہ راؤ راجہ بہادر کہ حکم سے جن کے
رواں ہو تار پہ فی الفور دانہ وار گرہ
انھیں کی سال گرہ کے لیے سال بسال
کہ لائے غیب سے غنچوں کی نو بہار گرہ
انھیں کی سالگرہ کے لیے بناتا ہے
ہوا میں بوند کو ابر تگرگ بار گرہ
انھیں کی سالگرہ کی یہ شادمانی ہے
کہ ہو گئے ہیں گہر ہاے شاہوار گرہ
انھیں کی سالگرہ کے لیے ہے یہ توقیر
کہ بن گئے ہیں ثمر ہاے شاخسار گرہ
سن اے ندیم برس گانٹھ کے یہ تاگے نے
پئے دعاے بقاے جناب فیض مآب
لگے گی اس میں ثوابت کی استوار گرہ
ہزار دانے کی تسبیح چاہتا ہے بنے
بلا مبالغہ درکار ہے ہزار گرہ
عطا کیا ہے خدا نے وہ جاذبہ اس کو
کہ چھوڑتا ہی نہیں رشتہ زینہار گرہ
کشادہ رخ نہ پھرے کیوں کہ اس زمانے میں
بچی نہ از پئے بند نقاب یار گرہ
متاع عیش کا ہے قافلہ چلا آتا
کہ جادہ رشتہ ہے اور ہے شتر قطار گرہ
خدا نے دی ہے وہ غالبؔ کو دستگاہ سخن
کڑوڑوں ڈھونڈھ کے لاتا یہ خاکسار گرہ
کہاں مجال سخن سانس لے نہیں سکتا
پڑی ہے غم کی مرے دل میں پیچ دار گرہ
گرہ کا نام لیا پر نہ کر سکا کچھ بات
زباں تک آ کے ہوئی اور استوار گرہ
کھلے یہ گانٹھ تو البتہ دم نکل جاوے
بری طرح سے ہوئی ہے گلے کا ہار گرہ
ادھر نہ ہوگی توجہ حضور کی جب تک
کبھی کسی سے کھلے گی نہ زینہار گرہ
دعا یہ ہے کہ مخالف کے دل میں از رہ بغض
پڑی ہے یہ جو بہت سخت نابکار گرہ
دل اس کا پھوڑ کے نکلے بہ شکل پھوڑے کے
خدا کرے کہ کرے اس طرح ابھار گرہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |