Jump to content

تو دوست کسو کا بھی ستم گر نہ ہوا تھا

From Wikisource
تو دوست کسو کا بھی ستم گر نہ ہوا تھا
by مرزا غالب
298121تو دوست کسو کا بھی ستم گر نہ ہوا تھامرزا غالب

تو دوست کسی کا بھی، ستم گر! نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا

چھوڑا مہِ نخشب کی طرح دستِ قضا نے
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا

توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا

جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم
میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا

میں سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں
یعنی سبقِ شوقِ مکرّر نہ ہوا تھا

دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا

جاری تھی اسدؔ! داغِ جگر سے مِری تحصیل
آتشکدہ جاگیرِ سَمَندر نہ ہوا تھا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.