صبح دم دروازۂ خاور کھلا
صبح دم دروازۂ خاور کھلا
مہر عالم تاب کا منظر کھلا
خسرو انجم کے آیا صرف میں
شب کو تھا گنجینۂ گوہر کھلا
وہ بھی تھی اک سیمیا کی سی نمود
صبح کو راز مہ و اختر کھلا
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
سطح گردوں پر پڑا تھا رات کو
موتیوں کا ہر طرف زیور کھلا
صبح آیا جانب مشرق نظر
اک نگار آتشیں رخ سر کھلا
تھی نظر بندی کیا جب رد سحر
بادۂ گلرنگ کا ساغر کھلا
لا کے ساقی نے صبوحی کے لیے
رکھ دیا ایک جام زر کھلا
بزم سلطانی ہوئی آراستہ
کعبۂ امن و اماں کا در کھلا
تاج زریں مہر تاباں سے سوا
خسرو آفاق کے منہ پر کھلا
شاہ روشن دل بہادر شہ کو ہے
راز ہستی اس پر سر تا سر کھلا
وہ کہ جس کی صورت تکوین میں
مقصد نہ چرخ و ہفت اختر کھلا
وہ کہ جس کے ناخن تاویل سے
عقدہ احکام پیغمبر کھلا
پہلے دارا کا نکل آیا ہے نام
اس کے سرہنگوں کا جب دفتر کھلا
روشناسوں کی جہاں فہرست ہے
واں لکھا ہے چہرۂ قیصر کھلا
توسن شہ میں ہے وہ خوبی کہ جب
تھان سے وہ غیرت صرصر کھلا
نقش پا کی صورتیں وہ دلفریب
تو کہے بت خانہ آزر کھلا
مجھ پہ فیض تربیت سے شاہ کے
منصب مہر و مہ و محور کھلا
لاکھ عقدے دل میں تھے لیکن ہر ایک
میری حد وسع سے باہر کھلا
تھا دل وابستہ قفل بے کلید
کس نے کھولا کب کھلا کیوں کر کھلا
باغ معنی کی دکھاؤں گا بہار
مجھ سے گر شاہ سخن گستر کھلا
ہو جہاں گرم غزالخوانی نفس
لوگ جانیں طبلۂ عنبر کھلا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |