Jump to content

منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی

From Wikisource
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
by مرزا غالب
298893منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کیمرزا غالب

منظور تھی یہ شکل تجلّی کو نور کی
قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی

اِک خونچکاں کفن میں کروڑوں بناؤ ہیں
پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی

واعظ! نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی!

لڑتا ہے مجھ سے حشر میں قاتل، کہ کیوں اٹھا؟
گویا ابھی سنی نہیں آواز صور کی

آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج
اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی

گو واں نہیں، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے د ور کی

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی

گرمی سہی کلام میں، لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اُس نے شکایت ضرور کی

غالبؔ گر اِس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.