Jump to content

ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں

From Wikisource
ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں
by مرزا غالب
298955ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیںمرزا غالب

ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں

کس منہ سے شکر کیجیے اس لطف خاص کا
پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں

ہم کو ستم عزیز، ستم گر کو ہم عزیز
نا مہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں

بوسہ نہیں، نہ دیجیے دشنام ہی سہی
آخر زباں تو رکھتے ہو تم، گر دہاں نہیں

ہر چند جاں گدازیِ قہر و عتاب ہے
ہر چند پشت گرمیِ تاب و تواں نہیں

جاں مطربِ ترانہ ھَل مِن مَزِید ہے
لب پر دہ سنجِ زمزمۂ الاَماں نہیں

خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دو نیم
دل میں چُھری چبھو مژہ گر خونچکاں نہیں

ہے ننگِ سینہ دل اگر آتش کدہ نہ ہو
ہے عارِ دل نفس اگر آذر فشاں نہیں

نقصاں نہیں جنوں میں بلا سے ہو گھر خراب
سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں

کہتے ہو “کیا لکھا ہے تری سرنوشت میں”
گویا جبیں پہ سجدۂ بت کا نشاں نہیں

پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے کلام کی
رُوح القُدُس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں

جاں ہے بہائے بوسہ ولے کیوں کہے ابھی
غالبؔ کو جانتا ہے کہ وہ نیم جاں نہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.