ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر
Appearance
ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر
عشق کا اس کو گماں ہم بے زبانوں پر نہیں
ضبط سے مطلب بجز وارستگی دیگر نہیں
دامن تمثال آب آئنہ سے تر نہیں
باعث ایذا ہے برہم خوردن بزم سرور
لخت لخت شیشۂ بشکستہ جز نشتر نہیں
دل کو اظہار سخن انداز فتح الباب ہے
یاں صریر خامہ غیر از اصطکاک در نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |