ہند میں اہل تسنن کی ہیں دو سلطنتیں
ہند میں اہل تسنن کی ہیں دو سلطنتیں
حیدرآباد دکن رشک گلستان ارم
رامپور اہل نظر کی ہے نظر میں وہ شہر
کہ جہاں ہشت بہشت آ کے ہوئے ہیں باہم
حیدرآباد بہت دور ہے اس ملک کے لوگ
اس طرف کو نہیں جاتے ہیں جو جاتے ہیں تو کم
رام پور آج ہے وہ بقعہ معمور کہ ہے
مرجع و مجمع اشراف نژاد آدم
رام پور ایک بڑا باغ ہے از روے مثال
دلکش و تازہ و شاداب و وسیع و خرم
جس طرح باغ میں ساون کی گھٹائیں برسیں
ہے اسی طور پہ یاں دجلہ فشاں دست کرم
ابر دست کرم کلب علی خاں سے مدام
در شہوار ہیں جو گرتے ہیں قطرے پیہم
صبح دم باغ میں آ جائے جسے ہو نہ یقیں
سبزہ و برگ گل و لالہ پہ دیکھے شبنم
حبذا باغ ہمایون تقدس آثار
کہ جہاں چرنے کو آتے ہیں غزالان حرم
مسلک شرع کے ہیں راہرو و راہ شناس
خضر بھی یاں اگر آجائے تو لے ان کے قدم
مدح کے بعد دعا چاہیے اور اہل سخن
اس کو کرتے ہیں بہت بڑھ کے بہ اغراق رقم
حق سے کیا مانگیے ان کے لیے جب ہو موجود
ملک و گنجینہ و خیل و سپہ و کوس و علم
ہم نہ تبلیغ کے مائل نہ غلو کے قائل
دو دعائیں ہیں کہ وہ دیتے ہیں نواب کو ہم
یا خدا غالبؔ عاصی کے خدا وند کو دے
دو وہ چیزیں کہ طلبگار ہے جن کا عالم
اولاً عمر طبیعی بہ دوام اقبال
ثانیاً دولت دیدار شہنشاہ امم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |