مرحبا سال فرخی آئیں
مرحبا سال فرخی آئیں
عید شوال و ماہ فرور دیں
شب و روز افتخار لیل و نہار
مہ و سال اشرف ہفتہ بعد نہیں
سو اس اکیس دن میں ہولی کی
مجلسیں جا بجا ہوئیں رنگیں
شہر گویا نمونۂ گلزار
باغ گویا نگارخانۂ چیں
تین تیوہار اور ایسے خوب
جمع ہرگز ہوے نہ ہونگے کہیں
پھر ہوئی ہے اسی مہینے میں
منعقد محفل نشاط قریں
محفل غسل صحت نواب
رونق افزاے مسند تمکیں
بزم گہ میں امیر شاہ نشاں
رزم گہ میں حریف شیر کمیں
پیش گاہ حضور شوکت و جاہ
خیر خواہ جناب دولت و دیں
جن کی مسند کا آسماں گوشہ
جن کی خاتم کا آفتاب نگیں
جن کی دیوار قصر کے نیچے
آسماں ہے گداے سایہ نشیں
دہر میں اس طرح کی بزم سرور
نہ ہوئی ہو کبھی بروے زمیں
انجم چرخ گوہر آگیں فرش
نور مے ماہ ساغر سیمیں
راجہ اندر کا جو اکھاڑا ہے
ہے وہ بالاے سطح چرخ بریں
وہ نظرگاہ اہل وہم و خیال
یہ ضیا بخش چشم اہل یقیں
واں کہاں یہ عطا و بذل و کرم
کہ جہاں گدیہ گر کا نام نہیں
یاں زمیں پر نظر جہاں تک جائے
ژالہ آما بچھے ہیں در ثمیں
نغمۂ مطربان زہرہ نوا
جلوۂ لولیان ماہ جبیں
اس اکھاڑے میں جو کہ ہے مظنوں
یاں وہ دیکھا بچشم صورت بیں
سرور مہر فر ہوا جو سوار
بکمال تجمل و تزئیں
سب نے جانا کہ ہے پری توسن
اور بال پری ہے دامن زیں
نقش سم سمند سے یکسر
بن گیا دشت دامن گلچیں
فوج کی گرد راہ مشک فشاں
رہرووں کے مشام عطر آگیں
بس کہ بخشی ہے فوج کو عزت
فوج کا ہر پیادہ ہے فرزیں
موکب خاص یوں زمیں پر تھا
جس طرح ہے سپہر پر پرویں
چھوڑ دیتا تھا گور کو بہرام
ران پر داغ تازہ دے کے وہیں
اور داغ آپ کی غلامی کا
خاص بہرام کا ہے زیب سریں
بندہ پرور ثنا طرازی سے
مدعا عرض فن شعر نہیں
آپ کی مدح اور میرا منھ
گر کہوں بھی تو کس کو آئے یقیں
اور پھر اب کہ ضعف پیری سے
ہو گیا ہوں نزار و زارو حزیں
پیری و نیستی خدا کی پناہ
دست خالی و خاطر غمگیں
صرف اظہار ہے ارادت کا
ہے قلم کی جو سجدہ ریز جبیں
مدح گستر نہیں دعاگو ہے
غالبؔ عاجز نیاز آگیں
ہے دعا بھی یہی کہ دنیا میں
تم رہو زندہ جاوداں آمیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |