Jump to content

کب وہ سنتا ہے کہانی میری

From Wikisource
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
by مرزا غالب
298935کب وہ سنتا ہے کہانی میریمرزا غالب

کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری

خلشِ غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ
دیکھ خوں نابہ فشانی میری

کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری

ہوں ز خود رفتۂ بیدائے خیال
بھول جانا ہے نشانی میری

متقابل ہے مقابل میرا
رک گیا دیکھ روانی میری

قدرِ سنگِ سرِ رہ رکھتا ہوں
سخت ارزاں ہے گرانی میری

گرد بادِ رہِ بیتابی ہوں
صرصرِ شوق ہے بانی میری

دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا
کھل گئی ہیچ مدانی میری

کر دیا ضعف نے عاجز غالبؔ
ننگِ پیری ہے جوانی میری


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.