Author:حفیظ جونپوری
Appearance
حفیظ جونپوری (1865 - 1918) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
- یوں اٹھا دے ہمارے جی سے غرض
- یوں تو حسین اکثر ہوتے ہیں شان والے
- یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ ایسا ہو نہیں سکتا
- یہی مسئلہ ہے جو زاہدو تو مجھے کچھ اس میں کلام ہے
- یاد ہے پہلے پہل کی وہ ملاقات کی بات
- وہ حسیں بام پر نہیں آتا
- وہ ہمکنار ہے جام شراب ہاتھ میں ہے
- وصل میں آپس کی حجت اور ہے
- وصل آسان ہے کیا مشکل ہے
- اس کو آزادی نہ ملنے کا ہمیں مقدور ہے
- ان کی یہ ضد کہ مرے گھر میں نہ آئے کوئی
- ان کو دل دے کے پشیمانی ہے
- سن کے میرے عشق کی روداد کو
- صبح کو آئے ہو نکلے شام کے
- شکوہ کرتے ہیں زباں سے نہ گلا کرتے ہیں
- شب وصل ہے بحث حجت عبث
- شب وصال یہ کہتے ہیں وہ سنا کے مجھے
- شب وصال لگایا جو ان کو سینے سے
- ساتھ رہتے اتنی مدت ہو گئی
- صدمے جو کچھ ہوں دل پہ سہیے
- قاصد خلاف خط کہیں تیرا بیاں نہ ہو
- پی ہم نے بہت شراب توبہ
- پتھر سے نہ مارو مجھے دیوانہ سمجھ کر
- نازنیں جن کے کچھ نیاز نہیں
- نہ آ جائے کسی پر دل کسی کا
- مصیبتیں تو اٹھا کر بڑی بڑی بھولے
- منہ مرا ایک ایک تکتا تھا
- محبت کیا بڑھی ہے وہم باہم بڑھتے جاتے ہیں
- مژگاں ہیں غضب ابروے خم دار کے آگے
- مرے عیبوں کی اصلاحیں ہوا کیں بحث دشمن سے
- لکھ دے عامل کوئی ایسا تعویذ
- کوئی جہاں میں نہ یا رب ہو مبتلائے فراق
- کسی کو دیکھ کر بے خود دل کام ہو جانا
- خود بہ خود آنکھ بدل کر یہ سوال اچھا ہے
- خراب و خستہ ہوئے خاک میں شباب ملا
- کرنا جو محبت کا اقرار سمجھ لینا
- کہیں مرنے والے کہا مانتے ہیں
- کہا یہ کس نے کہ وعدے کا اعتبار نہ تھا
- جنوں کے جوش میں پھرتے ہیں مارے مارے اب
- جاؤ بھی جگر کیا ہے جو بیداد کرو گے
- جب تک کہ طبیعت سے طبیعت نہیں ملتی
- جان ہی جائے تو جائے درد دل
- اسی خیال سے ترک ان کی چاہ کر نہ سکے
- ادھر ہوتے ہوتے ادھر ہوتے ہوتے
- ہم کو دکھا دکھا کے غیروں کے عطر ملنا
- ہوئے عشق میں امتحاں کیسے کیسے
- ہو ترک کسی سے نہ ملاقات کسی کی
- حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی
- حفیظؔ وصل میں کچھ ہجر کا خیال نہ تھا
- ہائے اب کون لگی دل کی بجھانے آئے
- گو یہ رکھتی نہیں انسان کی حالت اچھی
- دنیا میں یوں تو ہر کوئی اپنی سی کر گیا
- دیا جب جام مے ساقی نے بھر کے
- دیوانے ہوئے صحرا میں پھرے یہ حال تمہارے غم نے کیا
- دل پر لگا رہی ہے وہ نیچی نگاہ چوٹ
- دل میں ہیں وصل کے ارمان بہت
- دل کو اسی سبب سے ہے اضطراب شاید
- دل اس لئے ہے دوست کہ دل میں ہے جائے دوست
- دل ہے تو ترے وصل کے ارمان بہت ہیں
- چاک داماں نہ رہا چاک گریباں نہ رہا
- بت کدہ نزدیک کعبہ دور تھا
- بگڑ جاتے تھے سن کر یاد ہے کچھ وہ زمانہ بھی
- بتاؤں کیا کسی کو میں کہ تم کیا چیز ہو کیا ہو
- بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
- عجب زمانے کی گردشیں ہیں خدا ہی بس یاد آ رہا ہے
- افسردگئ دل سے یہ رنگ ہے سخن میں
- ادا پریوں کی صورت حور کی آنکھیں غزالوں کی
- اب تو نہیں آسرا کسی کا
- آپ ہی سے نہ جب رہا مطلب
- آغاز محبت میں برسوں یوں ضبط سے ہم نے کام لیا
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |