شکوہ کرتے ہیں زباں سے نہ گلا کرتے ہیں
Appearance
شکوہ کرتے ہیں زباں سے نہ گلا کرتے ہیں
تم سلامت رہو ہم تو یہ دعا کرتے ہیں
پھر مرے دل کے پھنسانے کی ہوئی ہے تدبیر
پھر نئے سر سے وہ پیمان وفا کرتے ہیں
تم مجھے ہاتھ اٹھا کر اس ادا سے کوسو
دیکھنے والے یہ سمجھیں کہ دعا کرتے ہیں
ان حسینوں کا ہے دنیا سے نرالا انداز
شوخیاں بزم میں خلوت میں حیا کرتے ہیں
حشر کا ذکر نہ کر اس کی گلی میں واعظ
ایسے ہنگامے یہاں روز ہوا کرتے ہیں
لاگ ہے ہم سے عدو کو تو عدو سے ہمیں رشک
ایک ہی آگ میں ہم دونوں جلا کرتے ہیں
ان کا شکوہ نہ رقیبوں کی شکایت ہے حفیظؔ
صرف ہم اپنے مقدر کا گلا کرتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |