یاد ہے پہلے پہل کی وہ ملاقات کی بات
Appearance
یاد ہے پہلے پہل کی وہ ملاقات کی بات
وہ مزے دن کے نہ بھولے ہیں نہ وہ رات کی بات
کبھی مسجد میں جو واعظ کا بیاں سنتا ہوں
یاد آتی ہے مجھے پیر خرابات کی بات
یاد پیری میں کہاں اب وہ جوانی کی ترنگ
صبح ہوتے ہی ہمیں بھول گئی رات کی بات
شیخ جی مجمع رنداں میں نصیحت کیسی
کون سنتا ہے یہاں قبلۂ حاجات کی بات
ہائے پھر چھیڑ دیا ذکر عدو کا تم نے
پھر نکالی نہ وہی ترک ملاقات کی بات
جب لیا عہد شب وصل کہا اس نے حفیظؔ
صبح کو یاد رہے گی یہ ہمیں رات کی بات
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |