ادا پریوں کی صورت حور کی آنکھیں غزالوں کی
ادا پریوں کی صورت حور کی آنکھیں غزالوں کی
غرض مانگے کی ہر اک چیز ہے ان حسن والوں کی
بجائے رقص مے خانے میں ہے گردش پیالوں کی
تکلف بر طرف یہ بزم ہے اللہ والوں کی
نشاں جب مٹ گیا تربت کا آئے فاتحہ پڑھنے
انہیں کب یاد آئی ہیں وفائیں مرنے والوں کی
ہوا دو گز کفن منعم کو حاصل مال دنیا سے
بندھی رکھی ہی آخر رہ گئی گٹھری دوشالوں کی
دکھا کر دل مرا پھر آپ ہی عذر جفا کرنا
ارے کافر تری اک چال ہے یہ لاکھ چالوں کی
ابھی تم کو بہت کچھ ناز ہے ترچھی نگاہوں پر
مگر دیکھی نہیں تاثیر تم نے میرے نالوں کی
ترے ہوتے ہوئے یہ بات غیرت کی ہے او ظالم
اڑائے آسماں یوں خاک تیری پائمالوں کی
بھلے ہیں یا برے جو کچھ ہیں بندے تو خدا کے ہیں
ندامت اس قدر واعظ نہ کر مے خانے والوں کی
ہوئی بوچھار مجھ پر شکوۂ بے جا کی پھر کیا کیا
جہاں چھیڑا انہیں بس کھل گئی گٹھری ملالوں کی
گنہ گار محبت ہیں جدھر گزریں گے محشر میں
ہمارے ساتھ ساتھ اک بھیڑ ہوگی خوش جمالوں کی
فرشتوں سے حفیظؔ اک دن لحد میں گفتگو ہوگی
ابھی سے فکر لازم ہے تمہیں ان کے سوالوں کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |