دل ہے تو ترے وصل کے ارمان بہت ہیں
Appearance
دل ہے تو ترے وصل کے ارمان بہت ہیں
یہ گھر جو سلامت ہے تو مہمان بہت ہے
میں داد کا خواہاں نہیں اے داور محشر
آج اپنے کیے پر وہ پشیمان بہت ہیں
دل لے کے کھلونے کی طرح توڑ نہ ڈالیں
ڈر مجھ کو یہی ہے کہ وہ نادان بہت ہیں
وہ پھول چڑھاتے ہیں دبی جاتی ہے تربت
معشوق کے تھوڑے سے بھی احسان بہت ہیں
تم کو نہ پسند آئے نہ لو پھیر دو مجھ کو
اس دل کے خریدار مری جان بہت ہیں
ڈانٹا کبھی غمزے نے کبھی ناز نے ٹوکا
خلوت میں بھی ساتھ ان کے نگہبان بہت ہیں
خالی بھی کوئی دل ہے وہاں عشق صنم سے
کہنے کو تو کعبے میں مسلمان بہت ہیں
شاید یہ اثر ہو میری آہ سحری کا
کچھ صبح سے وہ آج پریشان بہت ہیں
کیا شب کو حفیظؔ ان سے یہیں وصل کی ٹھہری
آج آپ کے گھر عیش کے سامان بہت ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |