منہ مرا ایک ایک تکتا تھا
Appearance
منہ مرا ایک ایک تکتا تھا
اس کی محفل میں میں تماشا تھا
ہم جو تجھ سے پھریں خدا سے پھریں
یاد ہے کچھ یہ قول کس کا تھا
وصل میں بھی رہا فراق کا غم
شام ہی سے سحر کا کھٹکا تھا
اپنی آنکھوں کا کچھ قصور نہیں
حسن ہی دل فریب اس کا تھا
فاتحہ پڑھ رہے تھے وہ جب تک
میری تربت پر ایک میلا تھا
نامہ بر نامہ جب دیا تو نے
کچھ زبانی بھی اس نے پوچھا تھا
اب کچھ اس کا بھی اعتبار نہیں
پہلے دل پر بڑا بھروسا تھا
وہ جو رک رک کے پوچھتے تھے حال
دل میں رہ رہ کے درد اٹھتا تھا
جوٹھا وعدہ بھی اے حفیظؔ ان کا
زندگی کا مری سہارا تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |