کہا یہ کس نے کہ وعدے کا اعتبار نہ تھا
Appearance
کہا یہ کس نے کہ وعدے کا اعتبار نہ تھا
وہ اور بات تھی جس سے مجھے قرار نہ تھا
شب وصال وہ کس ناز سے یہ کہتے ہیں
ہمارے ہجر میں سچ مچ تجھے قرار نہ تھا
بگھارتا ہے جو اب شیخ زہد کی باتیں
تو کیا یہ عہد جوانی میں بادہ خوار نہ تھا
فقط تھی ایک خموشی مرے سخن کا جواب
نہیں نہیں تجھے کہنا ہزار بار نہ تھا
یہ مجھ کو دیکھتے ہی تو نے کیوں چرائی آنکھ
نگاہ لطف کا کیا میں امیدوار نہ تھا
وہی تھیں عیش کی راتیں وہی تھے لطف کے دن
کسی کی یاد کسی کا جب انتظار نہ تھا
ہزار شکر کہ نکلا وہ صادق الاقرار
تمہیں حفیظؔ کی باتوں کا اعتبار نہ تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |