یہی مسئلہ ہے جو زاہدو تو مجھے کچھ اس میں کلام ہے
یہی مسئلہ ہے جو زاہدو تو مجھے کچھ اس میں کلام ہے
وہی شے حلال ہے خلد میں وہی میکدے میں حرام ہے
مری آنکھ میں جو سما گیا مرے دل میں جس کا مقام ہے
ابھی مجھ سے ہے وہ الگ تھلگ نہ پیام ہے نہ سلام ہے
یہی کہنا اس سے پیامبر کہ بس آخری یہ پیام ہے
جو ذرا بھی جانے میں دیر کی تو کسی کا کام تمام ہے
کبھی قطع کی مری گفتگو کبھی کہہ دیا مجھے کیا ہے تو
یہ بتا تو او بت جنگجو کوئی یہ بھی طرز کلام ہے
کوئی ذکر غیر کا یہ نہ تھا جسے آپ سن کے ہوئے خفا
مجھے اپنے بخت سے ہے گلہ مجھے اپنے دل سے کلام ہے
جو چلا تو بزم سرور میں جو رہا تو عالم نور میں
مرے دل میں کیف مدام ہے مرے سر میں گردش جام ہے
وہی شکوہ تجھ کو رقیب کا وہی رونا اپنے نصیب کا
یہ بتا تو او دل مبتلا تجھے اور بھی کوئی کام ہے
مرا نام لے کے نہ کوسیے یہ کہا تو ہنس کے وہ بول اٹھے
مجھے کیا خبر تھی زمانے میں فقط آپ ہی کا یہ نام ہے
مجھے کفر و دیں سے غرض نہیں کہ میں ایک بندۂ عشق ہوں
کوئی شیخ ہو کہ ہو برہمن مرا دور ہی سے سلام ہے
وہی آسمان ہے وہی زمیں مگر آنکھ اس کی جو پھر گئی
نہ وہ دن ہے اب نہ وہ رات ہے نہ وہ صبح ہے نہ وہ شام ہے
بہت اور ماہر فن ہیں یوں بہت اور اہل سخن ہیں یوں
مگر آ گیا جو پسند انہیں وہ حفیظؔ ہی کا کلام ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |