کہیں مرنے والے کہا مانتے ہیں
Appearance
کہیں مرنے والے کہا مانتے ہیں
وہی کر گزرتے ہیں جو ٹھانتے ہیں
کوئی کھیل ہے جان پر کھیل جانا
وہ یہ کہہ کے اکثر ہمیں تانتے ہیں
ملا یہ جواب آج رشک عدو پر
جو مانے ہمیں اس کو ہم مانتے ہیں
تڑپ کر ادھر ہو گیا کوئی ٹھنڈا
ادھر آپ دامن ہی گردانتے ہیں
کہیں کیا شب ہجر کٹتی ہے کیوں کر
جو دل پر گزرتی ہے ہم جانتے ہیں
مرے دل کی کچھ قدر ہوگی انہیں کو
جو کھوٹا کھرا خوب پہچانتے ہیں
یہ فقرے یہ چالیں یہ گھاتیں یہ باتیں
تجھے او دغاباز ہم جانتے ہیں
عدو سے بھی ہے صلح منظور اچھا
جو اب تک نہ مانی تھی اب مانتے ہیں
حفیظؔ اس کی جس پر ہوئی مہربانی
اسی کو زمانے میں سب مانتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |