اسی خیال سے ترک ان کی چاہ کر نہ سکے
Appearance
اسی خیال سے ترک ان کی چاہ کر نہ سکے
کہیں گے لوگ کہ دو دن نباہ کر نہ سکے
ہمیں جو دیکھ لیا جھک گئی حیا سے آنکھ
ادھر ادھر سر محفل نگاہ کر نہ سکے
خدا کے سامنے آیا کچھ اس ادا سے وہ شوخ
کہ منہ سے اف بھی ذرا داد خواہ کر نہ سکے
ترے کرم کا بھروسا ہی زاہدوں کو نہیں
اسی لیے تو یہ کھل کر نگاہ کر نہ سکے
رہا یہ پاس ہمیں آپ کی نزاکت کا
کہ دل کا خون ہوا منہ سے آہ کر نہ سکے
تمہیں حفیظؔ سے نفرت ہے تو یہ فکر ہے کیوں
کسی حسین سے وہ رسم و راہ کر نہ سکے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |