حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی
حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی
نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی
زمانہ فصل گل کا اور آغاز شباب اپنا
ابھی سے تو نے توبہ کی بھی اے زاہد کہی اچھی
جفا دوست اس کو کہتا ہے کوئی کوئی وفا دشمن
ہمارے ساتھ تو اس نے نباہی دوستی اچھی
تری خاطر سے زاہد ہم نے توبہ آج کی ورنہ
گھڑی بھر غم غلط کرنے کو بس وہ چیز تھی اچھی
زیادہ اے فلک دے رنج و راحت ہم کو جو کچھ دے
نہ دو دن کا یہ غم اچھا نہ دو دن کی خوشی اچھی
کبھی جب ہاتھ مل کر ان سے کہتا ہوں کہ بے بس ہوں
تو وہ ہنس کر یہ کہتے ہیں تمہاری بے بسی اچھی
جو سچ پوچھو حسینوں کا حیا نے رکھ لیا پردہ
نکل چلتے گھروں سے یہ تو ہوتی دل لگی اچھی
ہم آئیں آپ میں یارب وہ جس دم آئیں بالیں پر
ہجوم رنج تنہائی سے ہے یہ بے خودی اچھی
محبت کے مزے سے دل نہیں ہے آشنا جس کا
نہ اس کی زندگی اچھی نہ اس کی موت ہی اچھی
وہ میکش ہوں کہ دے کر دونی قیمت سب کی سب لے لی
کسی سے جب سنا میں نے کہ بھٹی میں کھنچی اچھی
اسے دنیا کی سو فکریں ہمیں اک رنگ ناداری
کہیں منعم کی دولت سے ہماری مفلسی اچھی
خوشی کے بعد غم کا سامنا ہونا قیامت ہے
جو غم کے بعد حاصل ہو وہ البتہ خوشی اچھی
نہ چھوٹے گی محبت غیر کی ہم سے نہ چھوٹے گی
اجی یہ بات تم نے آج تو کھل کر کہی اچھی
ہمارے دیدہ و دل میں ہزاروں عیب نکلیں گے
تمہارا آئنا اچھا تمہاری آرسی اچھی
ترے اس جبہ و دستار سے رندوں کو کیا مطلب
جسے جو وضع ہو مرغوب اے زاہد وہی اچھی
کہے سو شعر تم نے سست تو حاصل حفیظؔ اس کا
غزل ہو چست چھوٹی سی تو بیتوں کی کمی اچھی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |