یوں تو حسین اکثر ہوتے ہیں شان والے
یوں تو حسین اکثر ہوتے ہیں شان والے
لیکن کچھ اور ہے تو او آن بان والے
ناقوس دیر پھونکوں کعبے میں یا اذان دوں
تجھ کو کہاں پکاروں او لا مکان والے
منبر پہ بیٹھ کر تو اتنا بہک نہ واعظ
کیسی یہ نیچی باتیں اونچی دکان والے
یہ حسن یہ جوانی مہماں ہے چند روزہ
اس پر نہ کر یہ غرہ او آن بان والے
کعبے کو شیخ جائے بت خانے کو برہمن
یونہی ڈٹے رہیں گے اس آستان والے
ابرو پہ ڈال کر بل ترچھی نظر نہ کر تو
یہ تیر کج پڑے گا بانکی کمان والے
غیروں پہ تو نظر ہے میری بھی کچھ خبر ہے
میں بھی مٹا ہوا ہوں او آن بان والے
تلوار کھینچ کر کیا بازو کو دیکھتا ہے
دو ہاتھ بس لگا دے اب امتحان والے
قائل ترا جہاں ہے ہاں فرق درمیاں ہے
کچھ ہیں یقین والے کچھ ہیں گمان والے
فرہاد قیس دونوں دے بیٹھے جان آخر
مرتے ہیں بات ہی پر جتنے ہیں آن والے
وہ کس لیے بلائیں جائیں حفیظؔ ہم کیوں
وہ بھی ہیں شان والے ہم بھی ہیں آن والے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |