بگڑ جاتے تھے سن کر یاد ہے کچھ وہ زمانہ بھی
Appearance
بگڑ جاتے تھے سن کر یاد ہے کچھ وہ زمانہ بھی
کوئی کرتا تھا جب میری شکایت غائبانہ بھی
وہ جس پر مہرباں ہوتے ہیں دنیا اس کی ہوتی ہے
نظر ان کی پلٹتے ہی پلٹتا ہے زمانہ بھی
سنا کرتا ہوں طعنے ہجر میں کیا کیا رقیبوں کے
بنا ہوں اس محبت میں ملامت کا نشانہ بھی
یہاں بھی فرض ہے زاہد ادب سے سر جھکا لینا
مرے نزدیک کعبہ ہے کسی کا آستانہ بھی
فریب دام میں لائی ہے کچھ صیاد کی خاطر
قفس میں کھینچ کر لایا ہمیں کچھ آب و دانہ بھی
جلا کر دل مرا صیاد کا ٹھنڈا کلیجہ کر
کہیں اے برق جلدی پھونک میرا آشیانہ بھی
بگڑتے دیر ہوتی ہے نہ بنتے دیر ہوتی ہے
مزاج یار سے کچھ ملتا جلتا ہے زمانہ بھی
حسیں پڑھ کر غزل میری مرے مشتاق ہوتے ہیں
مسخر دل کو کرتا ہے کلام عاشقانہ بھی
نہ بھولے گی حفیظ احباب کو یہ سرگزشت اپنی
جہاں میں یاد رہ جائے گا کچھ اپنا فسانہ بھی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |