ہم کو دکھا دکھا کے غیروں کے عطر ملنا
Appearance
ہم کو دکھا دکھا کے غیروں کے عطر ملنا
آتا ہے خوب تم کو چھاتی پہ مونگ دلنا
محشر بپا کیا ہے رفتار نے تمہاری
اس چال کے تصدق یہ بھی ہے کوئی چلنا
غیروں کے گھر تو شب کو جاتے ہو بارہا تم
بھولے سے میرے گھر بھی اک روز آ نکلنا
ہٹ کی کچھ انتہا ہے ضد کی بھی کوئی حد ہے
یہ بات بات پر تو اچھا نہیں مچلنا
جلتا ہے غیر ہم سے تو کیا خطا ہماری
تم یہ سمجھ لو اس کی تقدیر میں ہے جلنا
جب تک ہیں تیرے در پر دل بستگی سی ہے کچھ
یہ آستاں جو چھوٹا مشکل ہے جی بہلنا
دیکھو حفیظؔ اپنے جی کی جو خیر چاہو
بستے جدھر حسیں ہوں وہ راستہ نہ چلنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |