دنیا میں یوں تو ہر کوئی اپنی سی کر گیا
دنیا میں یوں تو ہر کوئی اپنی سی کر گیا
زندہ ہے اس کا نام کسی پر جو مر گیا
صبح شب وصال ہے آئینہ ہاتھ میں
شرما کے کہہ رہے ہیں کہ چہرہ اتر گیا
ساقی کی بڑھ چلی ہیں جو بے التفاتیاں
شاید ہماری عمر کا پیمانہ بھر گیا
اتنا تو جانتے ہیں کہ پہلو میں دل نہیں
اس کی خبر نہیں کہ کہاں ہے کدھر گیا
ہم سے جو آپ روٹھ کے جاتے ہیں جائیے
سن لیجئے گا زہر کوئی کھا کے مر گیا
جاتا رہا شباب تو کچھ سوجھنے لگی
آنکھیں کھلیں شراب کا نشہ اتر گیا
ناصح کہاں کا چھیڑ دیا تو نے آ کے ذکر
اس کا خیال پھر مجھے بے چین کر گیا
دو دن میں یہ مزاج کی حالت بدل گئی
کل سر چڑھا تھا آج نظر سے اتر گیا
اچھا ہوا جو آپ عیادت کو آ گئے
سر کا یہ ایک بوجھ تھا وہ بھی اتر گیا
تیرے مریض ہجر کا اب تو یہ حال ہے
آیا جو دیکھنے کو وہ با چشم تر گیا
چھیڑا کسی نے ذکر محبت جو اے حفیظؔ
دل پر عجیب طرح کا صدمہ گزر گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |