شب وصال یہ کہتے ہیں وہ سنا کے مجھے
شب وصال یہ کہتے ہیں وہ سنا کے مجھے
کسی نے لوٹ لیا اپنے گھر بلا کے مجھے
پکارتا نہیں کوئی لحد پر آ کے مجھے
مرے نصیب بھی کیا سو رہے سلا کے مجھے
وہ بولے وصل کے شب آپ میں نہ پا کے مجھے
چلے گئے ہیں کہاں اپنے گھر بلا کے مجھے
گرا دیا ہے کچھ اس طرح اس نے آنکھوں سے
کہ دیکھتا نہیں کوئی نظر اٹھا کے مجھے
پری تھی کوئی چھلاوا تھی یا جوانی تھی
کہاں یہ ہو گئی چمپت جھلک دکھا کے مجھے
تمہاری بزم میں آئے تو جام مے مجھ تک
بلا سے دے دے کوئی زہر ہی ملا کے مجھے
اٹھا جو بزم سے ان کی تو روک کر یہ کہا
کہ لے چلے ہو کہاں دل میں تم چھپا کے مجھے
یہ تیرے ہجر کا غم تھا وہ تیرے عشق کا داغ
گیا جو کھا کے مجھے جو مٹا مٹا کے مجھے
جہاں پہ جاتے ہوئے میرے ہوش اڑتے ہیں
ترا خیال وہاں لے چلا لگا کے مجھے
مجھے ہے غش انہیں حیرت عجیب عالم ہے
میں کھو گیا ہوں انہیں دیکھ کر وہ پا کے مجھے
مری نگاہ میں پھرتی ہے میری موت کی شکل
جب آپ دیکھتے ہیں تیوریاں چڑھا کے مجھے
نہ دیکھو آئینہ دیکھو مرا کہا مانو
دکھاؤ غیر کو صورت نہ منہ دکھا کے مجھے
تڑپ لے دل کی یہ کہہ کہہ کے کوئی آتا ہے
بٹھا دیا ہے لحد میں اٹھا اٹھا کے مجھے
گلے لگا دے کروں پیار تیری تیغ کو میں
کہ یاد آئے کرشمے تری ادا کے مجھے
یہ میرے رونے پہ ہنستی ہے کیوں مری تقدیر
وہ اپنے دل میں تو کڑھتے نہیں رلا کے مجھے
جو مٹی دی ہے تو اب فاتحہ بھی پڑھتے جاؤ
کچھ اب ثواب بھی لو خاک میں ملا کے مجھے
حفیظؔ حشر میں کر ہی چکا تھا میں فریاد
کہ اس نے ڈانٹ دیا سامنے سے آ کے مجھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |