دل پر لگا رہی ہے وہ نیچی نگاہ چوٹ
Appearance
دل پر لگا رہی ہے وہ نیچی نگاہ چوٹ
پھر چوٹ بھی وہ چوٹ جو ہے بے پناہ چوٹ
پھوڑا سر اس کے در سے کہ برسے جنوں میں سنگ
مجھ کو دلا رہی ہے عجب اشتباہ چوٹ
بجلی کا نام سنتے ہی آنکھیں جھپک گئیں
روکے گی میری آہ کی کیا یہ نگاہ چوٹ
لالچ اثر کا ہو نہ کہیں باعث ضرر
ٹکرا کے سر فلک سے نہ کھا جائے آہ چوٹ
منہ ہر دہان زخم کا سیتے ہیں اس لیے
مطلب ہے حشر میں بھی نہ ہو داد خواہ چوٹ
ملتی ہے چپ کی داد یہ مشہور بات ہے
جل جائے آسماں جو کرے ضبط آہ چوٹ
اٹھتے ہی دل میں ٹیس جگر میں ٹپک ہوئی
کرتی ہے درد ہجر سے گویا نباہ چوٹ
چوکھٹ پہ تیری شب کو پٹکتا ہے سر حفیظؔ
باور نہ ہو تو دیکھ جبین ہے گواہ چوٹ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |