وصل آسان ہے کیا مشکل ہے
وصل آسان ہے کیا مشکل ہے
تجھ کو یہ دھیان ہے کیا مشکل ہے
وضع کا دھیان ہے کیا مشکل ہے
دوست نادان ہے کیا مشکل ہے
ہونٹ پر جان ہے کیا مشکل ہے
مشکل آسان ہے کیا مشکل ہے
ہائے دیوانہ بنا کر کہنا
پھر بھی اک شان ہے کیا مشکل ہے
اب جگہ چاہیے وحشت کو مری
تنگ میدان ہے کیا مشکل ہے
جس کو مر مٹ کے مٹایا تھا ابھی
پھر وہی دھیان ہے کیا مشکل ہے
بے بلائے کہیں جانے کے نہیں
آ پڑی آن ہے کیا مشکل ہے
ہم نہ اٹھتے ہیں نہ وہ دیتے ہیں
ہاتھ میں پان ہے کیا مشکل ہے
ہم کو سمجھائے سمجھ ناصح کی
پھر یہ احسان ہے کیا مشکل ہے
میرے بد عہد کو اللہ رکھے
موت آسان ہے کیا مشکل ہے
اس نے رکھا ہے وہ درباں جس سے
جان پہچان ہے کیا مشکل ہے
شیخ کرتا ہے بتوں کی غیبت
پھر مسلمان ہے کیا مشکل ہے
حسن پر خلق مٹی جاتی ہے
جو ہے قربان ہے کیا مشکل ہے
ہجر میں جان نکلتی نہیں آہ
یہ بھی ارمان ہے کیا مشکل ہے
بندگی بت کی خدا کے بندے
کفر ایمان ہے کیا مشکل ہے
چارہ گر کو ہے مرے فکر دوا
درد ہی جان ہے کیا مشکل ہے
بزم میں زہر اگلنے کو عدو
در پہ دربان ہے کیا مشکل ہے
یوں تو پہلے بھی محبت تھی حفیظؔ
اب تو ایمان ہے کیا مشکل ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |