کوئی جہاں میں نہ یا رب ہو مبتلائے فراق
Appearance
کوئی جہاں میں نہ یا رب ہو مبتلائے فراق
کسی کی جان کی دشمن نہ ہو بلائے فراق
ہزار طرح کے صدمے اسے گوارا ہیں
مگر اٹھا نہیں سکتا ہے دل جفائے فراق
لبوں پہ جان ہے اب صدمہ ہائے دوری سے
خبر وصال کی دیتی ہے انتہائے فراق
زبان بند ہے یہ جوش غم کا عالم ہے
بیان ہو نہیں سکتا ہے ماجرائے فراق
کریں جو ضبط کلیجا سراہیے ان کا
کہ آسماں کو بلاتے ہیں نالہ ہائے فراق
جدا حفیظؔ ہوا کون تیرے پہلو سے
لبوں پر آٹھ پہر ہے جو ہائے ہائے فراق
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |