Jump to content

خود بہ خود آنکھ بدل کر یہ سوال اچھا ہے

From Wikisource
خود بہ خود آنکھ بدل کر یہ سوال اچھا ہے
by حفیظ جونپوری
299656خود بہ خود آنکھ بدل کر یہ سوال اچھا ہےحفیظ جونپوری

خود بخود آنکھ بدل کر یہ سوال اچھا ہے
روز کب تک کوئی پوچھا کرے حال اچھا ہے

ہجر میں عیش گزشتہ کا خیال اچھا ہے
ہو جھلک جس میں خوشی کی وہ ملال اچھا ہے

وصل سے آپ کا ارمان وصال اچھا ہے
اس کا انجام برا اس کا مآل اچھا ہے

داغ بہتر ہے وہی ہو جو دل عاشق میں
جو رہے عارض خوباں پہ وہ خال اچھا ہے

دیکھ ان خاک کے پتلوں کی ادائیں زاہد
ان سے کس بات میں حوروں کا جمال اچھا ہے

کیجئے اور بھی شکوے کہ مٹے دل کا غبار
باتوں باتوں میں نکل جائے ملال اچھا ہے

تندرستی سے تو بہتر تھی مری بیماری
وہ کبھی پوچھ تو لیتے تھے کہ حال اچھا ہے

جو نگاہوں میں سما جائے وہ صورت اچھی
جو خریدار کو جچ جائے وہ مال اچھا ہے

چارہ گر کو مرے یہ بھی نہیں تمییز ابھی
کون سا حال برا کون سا حال اچھا ہے

دے خدا زر تو کوئی مے کدہ آباد کریں
اچھے کاموں میں جو ہو صرف وہ مال اچھا ہے

ہنس کے کہتے ہیں کبھی ہاتھ سے اڑنے کا نہیں
طائر رنگ حنا بے پر و بال اچھا ہے

جو نہ نکلے کبھی دل سے وہ تمنا اچھی
جو نہ آئے کبھی لب تک وہ سوال اچھا ہے

حسرت آتی ہے ہمیں حال پر اپنے کیا کیا
سنتے ہیں جب کسی بیمار کا حال اچھا ہے

حور کے ذکر پر آئینہ اٹھا کر دیکھا
اس سے ایما ہے کہ میرا ہی جمال اچھا ہے

آرزو میری نہ پوری ہو کوئی بات ہے یہ
کاش اتنا وہ سمجھ لیں کہ سوال اچھا ہے

مفت ملتا ہے خرابات میں ہر میکش کو
ٹھرا پینے کے لیے جام سفال اچھا ہے

سیکڑوں برق جمالوں کا گزر ہوتا ہے
طور سینا سے مرا بام خیال اچھا ہے

ہوں گدائے در مے خانہ تکلف سے بری
ٹوٹا پھوٹا یہ مرا جام سفال اچھا ہے

حال سنتے نہیں بے خود ہیں یہ مسجد والے
ان سے کچھ میکدے والوں ہی کا حال اچھا ہے

دفعتاً ترک محبت میں ضرر ہے جی کا
رفتہ رفتہ جو مٹے دل سے خیال اچھا ہے

اب کے ہر شہر میں پھیلا ہے جو طاعون حفیظؔ
مرنے والوں کو خوشی ہے کہ یہ سال اچھا ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.