خود بہ خود آنکھ بدل کر یہ سوال اچھا ہے
خود بخود آنکھ بدل کر یہ سوال اچھا ہے
روز کب تک کوئی پوچھا کرے حال اچھا ہے
ہجر میں عیش گزشتہ کا خیال اچھا ہے
ہو جھلک جس میں خوشی کی وہ ملال اچھا ہے
وصل سے آپ کا ارمان وصال اچھا ہے
اس کا انجام برا اس کا مآل اچھا ہے
داغ بہتر ہے وہی ہو جو دل عاشق میں
جو رہے عارض خوباں پہ وہ خال اچھا ہے
دیکھ ان خاک کے پتلوں کی ادائیں زاہد
ان سے کس بات میں حوروں کا جمال اچھا ہے
کیجئے اور بھی شکوے کہ مٹے دل کا غبار
باتوں باتوں میں نکل جائے ملال اچھا ہے
تندرستی سے تو بہتر تھی مری بیماری
وہ کبھی پوچھ تو لیتے تھے کہ حال اچھا ہے
جو نگاہوں میں سما جائے وہ صورت اچھی
جو خریدار کو جچ جائے وہ مال اچھا ہے
چارہ گر کو مرے یہ بھی نہیں تمییز ابھی
کون سا حال برا کون سا حال اچھا ہے
دے خدا زر تو کوئی مے کدہ آباد کریں
اچھے کاموں میں جو ہو صرف وہ مال اچھا ہے
ہنس کے کہتے ہیں کبھی ہاتھ سے اڑنے کا نہیں
طائر رنگ حنا بے پر و بال اچھا ہے
جو نہ نکلے کبھی دل سے وہ تمنا اچھی
جو نہ آئے کبھی لب تک وہ سوال اچھا ہے
حسرت آتی ہے ہمیں حال پر اپنے کیا کیا
سنتے ہیں جب کسی بیمار کا حال اچھا ہے
حور کے ذکر پر آئینہ اٹھا کر دیکھا
اس سے ایما ہے کہ میرا ہی جمال اچھا ہے
آرزو میری نہ پوری ہو کوئی بات ہے یہ
کاش اتنا وہ سمجھ لیں کہ سوال اچھا ہے
مفت ملتا ہے خرابات میں ہر میکش کو
ٹھرا پینے کے لیے جام سفال اچھا ہے
سیکڑوں برق جمالوں کا گزر ہوتا ہے
طور سینا سے مرا بام خیال اچھا ہے
ہوں گدائے در مے خانہ تکلف سے بری
ٹوٹا پھوٹا یہ مرا جام سفال اچھا ہے
حال سنتے نہیں بے خود ہیں یہ مسجد والے
ان سے کچھ میکدے والوں ہی کا حال اچھا ہے
دفعتاً ترک محبت میں ضرر ہے جی کا
رفتہ رفتہ جو مٹے دل سے خیال اچھا ہے
اب کے ہر شہر میں پھیلا ہے جو طاعون حفیظؔ
مرنے والوں کو خوشی ہے کہ یہ سال اچھا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |