بت کدہ نزدیک کعبہ دور تھا
Appearance
بت کدہ نزدیک کعبہ دور تھا
میں ادھر ہی رہ گیا مجبور تھا
شام ہی سے ہم کہیں جاتے تھے روز
مدتوں اپنا یہی دستور تھا
وہ کیا جس میں خوشی تھی آپ کی
وہ ہوا جو آپ کو منظور تھا
کچھ ادب سے رہ گئے نالے ادھر
کیا بتائیں عرش کتنی دور تھا
جس گھڑی تھا اس کے جلوے کا ظہور
عرش کا ہم سنگ کوہ طور تھا
اک حسیں کا آ گیا جو تذکرہ
دیر تک محفل میں ذکر حور تھا
وصل کی شب تھی شب معراج کیا
دور تک پھیلا ہوا اک نور تھا
ہر کس و ناکس سے کیا ملتی نگاہ
اپنی آنکھوں میں بت مغرور تھا
عمر بھر فکر سخن میں تھا حفیظؔ
شاعری کا دل میں اک ناسور تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |