چاک داماں نہ رہا چاک گریباں نہ رہا
چاک داماں نہ رہا چاک گریباں نہ رہا
پھر بھی پوشیدہ مرا حال پریشاں نہ رہا
بزم دشمن نہ کبھی درہم و برہم دیکھی
کیا ترا دور وہ اے گردش دوراں نہ رہا
مجھ کو افسوس کہ وہ اور عدو کے بس میں
اس کو یہ غم کہ مرا اب کوئی پرساں نہ رہا
ہم نے جو بات کہی تھی وہی آخر کو ہوئی
تم نے جو راز چھپایا تھا وہ پنہاں نہ رہا
منفعل ترک وفا نے مجھے برسوں رکھا
چار دن اپنے کیے پر وہ پشیماں نہ رہا
ان کی شوخی بھی ہوئی ہے مری وحشت کا جواب
ہاتھ ڈالا جو گریباں میں گریباں نہ رہا
بن گئی داغ کلیجے کا تمنائے وصال
داغ حسرت کے سوا اب کوئی ارماں نہ رہا
خیر سب قول و قسم جھوٹ سہی خوش رہیے
اب مرے آپ کے وہ عہد وہ پیماں نہ رہا
روکنے کو مجھے غیرت کے سوا اس در پر
کوئی درباں نہ رہا کوئی نگہباں نہ رہا
مٹ گیا شغل جنوں اب وہ کہاں جامہ دری
زور وحشت کا بھی اب دست و گریباں نہ رہا
چار جھڑکی میں ترے در سے الگ ہو بیٹھا
غیر کچھ روز بھی منت کش درباں نہ رہا
وقت کو ہاتھ سے کھو کر کوئی دنیا میں حفیظؔ
عمر بھر میری طرح سر بہ گریباں نہ رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |