سن کے میرے عشق کی روداد کو
Appearance
سن کے میرے عشق کی روداد کو
لوگ بھولے قیس کو فرہاد کو
اے نگاہ یاس ہو تیرا برا
تو نے تڑپا ہی دیا جلاد کو
بعد میرے اٹھ گئی قدر ستم
اب ترستے ہیں حسیں بیداد کو
اک ذرا جھوٹی تسلی ہی سہی
کچھ تو سمجھا دو دل ناشاد کو
ہائے یہ درد جگر کس سے کہوں
کون سنتا ہے مری فریاد کو
جائیں گے دنیا سے سب کچھ چھوڑ کر
ہاں مگر لے کر کسی کی یاد کو
اب مجھے مانیں نہ مانیں اے حفیظؔ
مانتے ہیں سب مرے استاد کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |