Author:مصطفٰی خان شیفتہ
Appearance
مصطفٰی خان شیفتہ (1809 - 1869) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- آج ہی کیا آگ ہے، سرگرمِ کیں تو کب نہ تھا
- اپنے جوار میں ہمیں مسکن بنا دیا
- اثر آہ دل زار کی افواہیں ہیں
- اٹھ صبح ہوئی مرغ چمن نغمۂ سرا دیکھ
- اُٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستانِ بادہ فروش
- ادھر مائل کہاں وہ مہ جبیں ہے
- اُس بزم میں ہر ایک سے کم تر نظر آیا
- اس جنبشِ ابرو کا گلہ ہو نہیں سکتا
- اُس وفا کی مجھ سے پھر امیدواری ہے عبث
- اصحابِ درد کو ہے عجب تیزیِ خیال
- اُن کو دسشمن سے ہے محبت خاص
- اے شیفتہ نویدِ شبِ غم سحر ہے آج
- بچتے ہیں اس قدر جو اُدھر کی ہوا سے ہم
- بس کہ آغازِ محبت میں ہوا کام اپنا
- بلبل کو بھی نہیں ہے دماغِ صدائے گل
- پابندیِ وحشت میں زنجیر کے مشتاق
- پلا جام ساقی مے ناب کا
- ترے فسوں کی نہیں میرے دل میں جا واعظ
- تقلیدِ عدو سے ہمیں ابرام نہ ہو گا
- تنگ تھی جا خاطر ناشاد میں
- تھا غیر کا جو رنجِ جدائی تمام شب
- تھا قصدِ بوسہ نشے میں سرشار دیکھ کر
- جب رقیبوں کا ستم یاد آیا
- جب سے عطا ہوا ہمیں خلعت حیات کا
- جفا و جور کا اس سے گلہ کیا
- جو کوئے دوست کو جاؤں تو پاسباں کے لیے
- جی داغِ غمِ رشک سے جل جائے تو اچھا
- خواہاں ہوں بوئے باغِ تنزہ شمیم کا
- خورشید کو اگرچہ نہ پہنچے ضیائے شمع
- دست عدو سے شب جو وہ ساغر لیا کیے
- دشمن سے ہے میرے دلِ مضطر کی شکایت
- دل کا گلہ فلک کی شکایت یہاں نہیں
- دل لیا جس نے بے وفائی کی
- دور رہنا ہم سے کب تک اور بے گانے کے پاس
- دیا ہے بوسہ مجھے جب کہ میں ہوا گستاخ
- دیکھوں تو کہاں تک وہ تلطف نہیں کرتا
- رات واں گل کی طرح سے جسے خنداں دیکھا
- رہ جائے کیوں نہ ہجر میں جاں آ کے لب تلک
- روز خوں ہوتے ہیں دو چار ترے کوچے میں
- روزِ غم میں کیا قیامت ہے شبِ عشرت کی یاد
- سب حوصلہ جو صرف ہوا جورِ یار کا
- شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں
- شکوہ جفا کا کیجے تو کہتے ہیں کیا کروں
- شوخی نے تیری لطف نہ رکھا حجاب میں
- شیفتہ آیا ہوں میں کس کا تماشا دیکھ کر
- شیفتہ ہجر میں تو نالۂ شب گیر نہ کھینچ
- صبح ہوتے ہی گیا گھر مہِ تاباں میرا
- طالعِ خفتۂ دشمن نہ جگانا شبِ وصل
- طلبِ بوسہ پر اس لب سے شکر آب لذیذ
- عشق کی میرے جو شہرت ہو گئی
- قبر پر وہ بتِ گل فام آیا
- قبر سے اٹھ کے یہی دھیان مکرر آیا
- غم غلط کرنے کو احباب ہمیں جانبِ باغ
- کہا کل میں نے اے سرمایۂ ناز
- یہ بات تو غلط ہے کہ دیوانِ شیفتہ
- کب نگہ اس کی عشوہ بار نہیں
- کب ہاتھ کو خیالِ جزائے رفو نہیں
- کچھ امتیاز مجھ کو نہ مے کا نہ سارکا
- کچھ اور بے دلی کے سوا آرزو نہیں
- کچھ درد ہے مطربوں کی لے میں
- کل نغمہ گر جو مطربِ جادو ترانہ تھا
- کم فہم ہیں تو کم ہیں پریشانیوں میں ہم
- کہوں میں کیا کہ کیا درد نہاں ہے
- کون سے دن تری یاد اے بت سفاک نہیں
- کیا اٹھ گیا ہے دیدۂ اغیار سے حجاب
- کیا غیر تھا کہ شب کو نہ تھا جلوہ گر چراغ
- کیا فائدہ نصیحتِ نا سود مند کا
- کیا لائقِ زکوٰۃ کوئی بے نوا نہ تھا
- کیوں نہ اڑ جائے مرا خواب ترے کوچے میں
- گہ ہم سے خفا وہ ہیں گہے ان سے خفا ہم
- گور میں یادِ قدِ یار نے سونے نہ دیا
- لازم ہے بے وفا تجھے اہلِ وفا سے ربط
- مانا سحر کو یار اسے جلوہ گر کریں
- محو ہوں میں جو اس ستمگر کا
- مر گئے ہیں جو ہجرِ یار میں ہم
- مطبوع یار کو ہے جفا اور جفا کو ہم
- میں پریشاں گرد اور محفل نشیں تو کب نہ تھا
- میں وصل میں بھی شیفتہ حسرت طلب رہا
- ناصح تپاں ہے، شیفتۂ نیم جاں کی طرح
- نہ اس زمانے میں چرچا ہے دانش و دیں کا
- نہ کر فاش رازِ گلستاں عبث
- ہائے اس برقِ جہاں سوز پر آنا دل کا
- ہم بے نشان اور وفا کا نشاں ہنوز
- ہم پر ہے التفات ہمارے حبیب کا
- ہند کی وہ زمیں ہے عشرت خیز
- ہے بد بلا کسی کو غم جاوداں نہ ہو
- ہے دل کو یوں ترے دمِ اعجاز اثر سے فیض
- واں ہوا پردہ اٹھانا موقوف
- وصل کے لطف اُٹھاؤں کیوں کر
- وہ پری وش عشق کے افسوں سے مائل ہو گیا
- یار کو محرومِ تماشا کیا
- یاں کے آنے میں نہیں ان کو جو تمکیں کا خیال
- یہ پیچ و تاب میں شبِ غم بے حواسیاں
- یہ فیضِ عام شیوہ کہاں تھا نسیم کا
- یوں بزمِ گل رخاں میں ہے اس دل کو اضطراب
- یوں پاس بوالہوس رہیں چشمِ غضب سے دور
نعت
[edit]
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |