رات واں گل کی طرح سے جسے خنداں دیکھا
Appearance
رات واں گل کی طرح سے جسے خنداں دیکھا
صبح بلبل کی روش ہمدمِ افغاں دیکھا
کوئی بے جان جہاں میں نہیں جیتا لیکن
تیرے مہجور کو جیتے ہوئے بے جاں دیکھا
میں نے کیا جانئے کس ذوق سے دی جاں دمِ قتل
کہ بہت اس سے ستم گر کو پشیماں دیکھا
نہ ہوا یہ کہ کبھی اپنے گلے پر دیکھیں
یوں تو سو بار ترا خنجرِ براں دیکھا
اس طرف کو بھی نگہ تا سرِ مژگاں آئی
بارے کچھ کچھ اثرِ گریۂ پنہاں دیکھا
پانی پانی ہوئے مرقد پہ مرے آ کے وہ جب
شمع کو نعش پہ پروانے کی، گریاں دیکھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |