کب ہاتھ کو خیالِ جزائے رفو نہیں
Appearance
کب ہاتھ کو خیالِ جزائے رفو نہیں
کب پارہ پارہ پیرہنِ چارہ جو نہیں
گلگشتِ باغ کس چمن آرا نے کی کہ آج
موجِ بہار مدعی رنگ و بو نہیں
واں بار ہو گیا ہے نزاکت سے بار بھی
یاں ضعف سے دماغ و دلِ آرزو نہیں
کس نے سنا دیا دلِ حیرت زدہ کا حال
یہ کیا ہوا کہ آئنہ اب روبرو نہیں
تغئیرِ رنگ کہتی ہے وصلِ عدو کا حال
یعنی نقاب رخ پہ کبھو ہے، کبھو نہیں
گستاخِ شکوہ کیا ہوں کہ اندازِ عرض پر
کہتے ہیں اختلاط کی بندے کی خو نہیں
کیا جانے دردِ زخم کو گو ہو شہیدِ ناز
جو نیم کشتِ خنجرِ رشکِ عدو نہیں
ابرِ سرشک و گلشنِ داغ و نسیمِ آہ
سامانِ عیش سب ہے پر افسوس تو نہیں
بد خوئیوں سے یار کی کیا خوش ہوں شیفتہ
ہر ایک کو جو حوصلۂ آرزو نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |