شوخی نے تیری لطف نہ رکھا حجاب میں
Appearance
شوخی نے تیری لطف نہ رکھا حجاب میں
جلوے نے تیرے آگ لگائی نقاب میں
وہ قطرہ ہوں کہ موجۂ دریا میں گم ہوا
وہ سایہ ہوں کہ محو ہوا آفتاب میں
اس صوت جاں نواز کا ثانی بنا نہیں
کیا ڈھونڈتے ہو بربط و عود و رباب میں
پوچھی تھی ہم نے وجہ ملاقات مدعی
اک عمر ہو گئی انہیں فکر جواب میں
لڑتی نہ جائے آنکھ جو ساقی سے شیفتہؔ
ہم کو تو خاک لطف نہ آئے شراب میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |