خواہاں ہوں بوئے باغِ تنزہ شمیم کا
Appearance
خواہاں ہوں بوئے باغِ تنزہ شمیم کا
یا رب ادھر بھی بھیج دے جھونکا نسیم کا
تیرے گدا کو سلطنتِ جم سے کیا، کہ ذوق
ہے کاسۂ شکستہ میں جامِ دو نیم کا
نیرنگِ جلوہ، بارقۂ ہوش سوز ہے
کیا امتیاز رنگ سے کیجے شمیم کا
تیری نسیم لطف سے گل کو شگفتگی
وابستہ تیرے حکم پہ چلنا نسیم کا
واجب کی حکمت آئے گی ممکن کی عقل میں؟
کتنا دماغ ہے خلل آگیں حکیم کا
دقت سے پہلے عجز سلامت کی راہ ہے
کیسا سپاس دار ہوں عقلِ سلیم کا
میری فنا ہے مشعلۂ محفلِ بقا
پروانہ ہوں میں پرتوِ شمعِ قدیم کا
گر تیرے شوق میں ہیں یہی بے قراریاں
لے لوں گا بوسہ پایۂ عرشِ عظیم کا
طاعت اگر نہیں تو نہ ہو یاس کس لئے
وابستۂ سبب ہے کرم کب کریم کا
جس وقت تیرے لطف کے دریا کو جوش آئے
فوارۂ جناں ہو زبانہ جحیم کا
اے شیفتہ عذابِ جہنم سے کیا مجھے
میں اُمتی ہوں نار و جناں کے قسیم کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |