اثر آہ دل زار کی افواہیں ہیں
Appearance
اثر آہ دل زار کی افواہیں ہیں
یعنی مجھ پر کرم یار کی افواہیں ہیں
شرم اے نالۂ دل خانۂ اغیار میں بھی
جوش افغان عزا بار کی افواہیں ہیں
کب کیا دل پہ مرے پند و نصیحت نے اثر
ناصح بیہودہ گفتار کی افواہیں ہیں
جنس دل کے وہ خریدار ہوئے تھے کس دن
یہ یونہی کوچہ و بازار کی افواہیں ہیں
قیس و فرہاد کا منہ؟ مجھ سے مقابل ہوں گے؟
مردم وادی و کہسار کی افواہیں ہیں
یہ بھی کچھ بات ہے میں اور کروں غیر سے بات
تم نہ مانو کہ یہ اغیار کی افواہیں ہیں
کس توقع پہ جئیں شیفتہؔ مایوس کرم
غیر پر بھی ستم یار کی افواہیں ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |