ہم پر ہے التفات ہمارے حبیب کا
Appearance
ہم پر ہے التفات ہمارے حبیب کا
گیرا مگر نہیں ہے نفس عندلیب کا
اب وہ ہے جلوہ ریز لباسِ سپاس میں
جو عہدِ کودکی میں گلہ تھا ادیب کا
اچھا جو اس کو سونگھے تو آ جائے اس کو غش
اچھا اثر ہے زلفِ معنبر کی طیب کا
تیری گلی سے آگے نہ ہرگز ہوا چلے
کوچے سے تیرے پاؤں نہ اٹھے غریب کا
مصروف ہے بہت وہ ہمارے علاج میں
ہم بھی ذرا علاج کریں گے طبیب کا
تسلیم سے وفاق، رضا سے ہے اتفاق
نے چرخ کا گلہ، نہ گلہ ہے نصیب کا
ہم پاؤں پھونک پھونک کے رکھتے ہیں کیا کریں
اس بزم میں ہے دخل سراسر رقیب کا
ہو جائے کاسہ لیس شگرفانِ میکدہ
جس کو کہ اشتیاق ہے حالِ عجیب کا
سنتے ہی نام دشمنِ صد سالہ ہو گیا
پوچھا جو مجھ سے نام کسی نے حبیب کا
اس رشکِ گل نے لی ہے جو بلبل تو شیفتہ
دیکھے چمن میں شور کوئی عندلیب کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |