Jump to content

یاں کے آنے میں نہیں ان کو جو تمکیں کا خیال

From Wikisource
یاں کے آنے میں نہیں ان کو جو تمکیں کا خیال
by مصطفٰی خان شیفتہ
297545یاں کے آنے میں نہیں ان کو جو تمکیں کا خیالمصطفٰی خان شیفتہ

یاں کے آنے میں نہیں ان کو جو تمکیں کا خیال
غالباً کچھ تو ہوا ہے مری تسکیں کا خیال

کفِ افسوس مَلے سے بھی پڑے ہاتھ میں نقش
بس کہ ہے دل میں مرے دستِ نگاریں کا خیال

گو مجھے عاشقِ مفلس وہ کہیں طعنے سے
تو بھی کیوں کر نہ رکھوں ساعدِ سیمیں کا خیال

تعزیت کو مری وہ آئے تو کیا ذلت ہے
اہلِ ماتم کو نہیں بزم کی تزئیں کا خیال

کیوں نہ ہو دستِ مژہ ماتمیوں کا رنگیں
مرتے دم تھا مجھے اس پنجۂ رنگیں کا خیال

سخنِ عشق ہے پتھر کی لکیر اے پرویز
دلِ فرہاد سے کیوں کر مٹے شیریں کا خیال

کیا مسلمان ہیں ہم شیفتہ سبحان اللہ
دل سے جاتا نہیں دم بھر بتِ بے دیں کا خیال


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.