لازم ہے بے وفا تجھے اہلِ وفا سے ربط
Appearance
لازم ہے بے وفا تجھے اہلِ وفا سے ربط
کیسا ہے دیکھ عکسِ ادا کو ادا سے ربط
یہ ناخن و خراش میں بگڑی کہ کیا کہوں
اک دم ہوا جو عقدہ بندِ قبا سے ربط
ناصح مری ملامتِ بے جا سے فائدہ
بے اختیار دل کو ہے اس دل ربا سے ربط
اس سرد مہر کو ہو اثر، پر جو ہو سکے
کام و دہاں کو میرے دمِ شعلہ زا سے ربط
کیجے گر ان سے شکوہ انجامِ کارِ عشق
کہتے ہیں مجھ کو تم سے نہ تھا ابتدا سے ربط
دو دن میں تنگ ہو گئے جورِ سپہر سے
اس حوصلے پہ کرتے تھےاس کی جفا سے ربط
کیا کیجے، بد گمانیِ ابرو کا دھیان ہے
کرتے وگرنہ ہجر میں تیغِ قضا سے ربط
تیرے ستم سے ہے یہ دعا لب پہ دم بہ دم
یا رب نہ ہو کسی کو کسی بے وفا سے ربط
صبحِ شبِ فراق کیا لطفِ مرگ نے
کیا دیر میں ہوا ہمیں زود آشنا سے ربط
فریادِ نزع کان تک اس کے نہ جا سکی
تھا شیفتہ ہمیں نفسِ نارسا سے ربط
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |