دست عدو سے شب جو وہ ساغر لیا کیے
Appearance
دست عدو سے شب جو وہ ساغر لیا کیے
کن حسرتوں سے خون ہم اپنا پیا کیے
شکر ستم نے اور بھی مایوس کر دیا
اس بات کا وہ غیر سے شکوہ کیا کیے
کب دل کے چاک کرنے کی فرصت ہمیں ملی
ناصح ہمیشہ چاک گریباں سیا کیے
تشبیہ دیتے ہیں لب جاں بخش یار سے
ہم مرتے مرتے نام مسیحا لیا کیے
ذکر وصال غیر و شب ماہ و بادہ سے
ایسے لیے گئے ہمیں طعنے دیا کیے
تھی لحظہ لحظہ ہجر میں اک مرگ نو نصیب
ہر دم خیال لب سے ترے ہم جیا کیے
طرز سخن کہے وہ مسلم ہے شیفتہؔ
دعوے زبان سے نہ کیے میں نے یا کیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |