بلبل کو بھی نہیں ہے دماغِ صدائے گل
بلبل کو بھی نہیں ہے دماغِ صدائے گل
بگڑی ہے تیرے دور میں ایسی ہوائے گل
ہنگامِ غش جو غیر کو اس نے سنگھائے گل
جنت میں لے چلی مری جاں کو ہوائے گل
ایما ہے بعدِ مرگ بھی ہم بے وفا رہے
اس واسطے مزار پہ میرے چڑھائے گل
مرتی ہیں گل کے نام پہ ہی بلبلیں کہ اب
پھرتی ہیں ساتھ ساتھ مرے جب سے کھائے گل
کھٹکوں عدو کی آنکھ میں تا بعدِ مرگ بھی
کانٹے مرے مزار پہ رکھنا بجائے گل
کس کس طرح سے کھوئے گئے غیر کیا کہوں
روزِ جزا بھی سینے پہ میرے جو پائے گل
جلتی ہے تیرے حسنِ جہاں سوز سے بہار
نکلیں گے شعلے خاکِ چمن سے بجائے گل
آخر دو رنگی اس گلِ رعنا پہ کھل گئ
لوگوں کو دیکھ کر جو عدو نے چھپائے گل
عاشق سے پہلے راہِ محبت میں جان دے
کیوں کر نہ عندلیب کرے جاں فدائے گل
خاموش عندلیب، کہ طاقت نہیں رہی
ہیں چاک پردے کان کے مثلِ قبائے گل
شاید دکھانے لائے گا اس کو کہ غیر نے
بستر پہ میرے کانٹوں کے بدلے بچھائے گل
جس گل میں ہے ادا وہ چمن میں بھلا کہاں
اے بلبلو، تمہیں کو مبارک ادائے گل
میرا انہیں کو غم ہے کہ بلبل کی آہ پر
کرتا ہے کون چاک گریباں، سوائے گل
جنت میں پہنچیں بلبلیں، پروانے جل گئے
اب کون شمع گور پر اور کون لائے گل
اک گل کا شوق تھا سبب اپنی وفات کا
پھولوں کے دن مرے رفقا نے منگائے گل
لکھی یہ ہم نے وہ غزلِ تازہ شیفتہ
ہر شعر جس میں داغ دہِ دستہ ہائے گل
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |