Author:میر محمدی بیدار
Appearance
میر محمدی بیدار (1732 - 1797) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- نہ دیا اس کوں یا دیا قاصد
- سبھوں سے یوں تو ہے دل آپ کا خوش
- جس دن تم آ کے ہم سے ہم آغوش ہو گئے
- آ تیری گلی میں مر گئے ہم
- جو ہوئی سو ہوئی جانے دو ملو بسم اللہ
- بے مروت بے وفا نامہرباں نا آشنا
- جاتا ہے مرے گھر سے دل دار خدا حافظ
- دل سے پوچھا تو کہاں ہے تو کہا تجھ کو کیا
- عاشق نہ اگر وفا کرے گا
- گیا ہے جب سے دکھا جلوہ وہ پری رخسار
- لب رنگیں ہیں ترے رشک عقیق یمنی
- ہم ہی تنہا نہ تری چشم کے بیمار ہوئے
- محو رخ یار ہو گئے ہم
- نہیں آرام ایک جا دل کو
- حسن سرشار ترا داروۓ بے ہوشی ہے
- لے چکے دل تو جنگ کیا ہے اب
- انجمن ساز عیش تو ہے یہاں
- جلوہ دکھا کے گزرا وہ نور دیدگاں کا
- مے و ساقی ہیں سب یکجا اَہاہاہا اَہاہاہا
- یہ بھی کوئی وضع آنے کی ہے جو آتے ہو تم
- خرقہ رہن شراب کرتا ہوں
- کھو دیا نور بصیرت تو نے ما و من کے بیچ
- اس ستم گر سے جو ملا ہوگا
- جو کچھ کہ تھا وظائف و اوراد رہ گیا
- مقدور کیا مجھے کہ کہوں واں کہ یاں رہے
- مکتب میں تجھے دیکھ کسے ہوش سبق ہے
- بھرے موتی ہیں گویا تجھ دہن میں
- اٹھ کے لوگوں سے کنارے آئیے
- دیکھ اس پری سے کیجئے کیا اب تو جا لگی
- کوئی کس طرح تم سے سر بر ہو
- اب تک مرے احوال سے واں بے خبری ہے
- جو تو ہو پاس تو دیکھوں بہار آنکھوں سے
- اے شمع دل افروز شب تار محبت
- تو نے جو کچھ کہ کیا میرے دل زار کے ساتھ
- مت پوچھ تو جانے دے احوال کو فرقت کے
- فقط قضیہ یہی ہے فن طبعی اور الٰہی میں
- آنے دو اپنے پاس مجھ کو
- وجد اہل کمال ہے کچھ اور
- ایک دن وصل سے اپنے مجھے تم شاد کرو
- مست ہم کو شراب میں رہنا
- دور سے بات خوش نہیں آتی
- دل کو میں آج ناصحاں اس کو دیا جو ہو سو ہو
- گر ایک رات گزر یاں وہ رشک ماہ کرے
- جس وقت تو بے نقاب آوے
- آہ ملتے ہی پھر جدائی کی
- آہ اے یار کیا کروں تجھ بن
- نہ غم دل نہ فکر جاں ہے یاد
- نشہ میں جی چاہتا ہے بوسہ بازی کیجئے
- کل وہ جو پئے شکار نکلا
- تم کو کہتے ہیں کہ عاشق کی فغاں سنتے ہو
- تجھ بن سرشک خوں کا ہے آنکھوں سے طغیاں اس قدر
- حصول فقر گر چاہے تو چھوڑ اسباب دنیا کو
- کچھ نہ ایدھر ہے نے ادھر تو ہے
- تنہا نہ دل ہی لشکر غم دیکھ ٹل گیا
- دل سلامت اگر اپنا ہے تو دل دار بہت
- صفا الماس و گوہر سے فزوں ہے تیرے دنداں کی
- گر اسی طرح سج بنائیے گا
- جانوں میں نہ جبکہ نام اس کا
- حیف ہے ایسی زندگانی پر
- شبنم تو باغ میں ہے نہ یوں چشم تر کہ ہم
- قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہے
- چمن لالہ یہ الفت تری دکھلاتی ہے
- دیتا نہیں دل لے کے وہ مغرور کسی کا
- کیوں نہ لے گلشن سے باج اس ارغواں سیما کا رنگ
- بیدارؔ کروں کس سے میں اظہار محبت
- کون یاں بازار خوبی میں ترا ہم سنگ ہے
- مے پئے مست ہے سرشار کہاں جاتا ہے
- زاہد اس راہ نہ آ مست ہیں مے خوار کئی
- یا رب جو خار غم ہیں جلا دے انہوں کے تئیں
- مے کدے میں جو ترے حسن کا مذکور ہوا
- نے فقط تجھ حسن کی ہے ہند کی خوباں میں دھوم
- جب تک کہ دل نہ لاگا ان بے مروتوں سے
- میر مجلس رنداں آج وہ شرابی ہے
- گر بڑے مرد ہو تو غیر کو یاں جا دیجے
- تیرے کوچہ سے نہ یہ شیفتگاں جاتے ہیں
- حسن ہر نونہال رکھتا ہے
- پاوے کس طرح کوئی کس کو ہے مقدور ہمیں
- ہم تری خاطر نازک سے خطر کرتے ہیں
- یوں مجھ پہ جفا ہزار کیجو
- تجھ بن آرام جاں کہاں ہے مجھے
- ایک دن مدتوں میں آئے ہو
- ہم پہ سو ظلم و ستم کیجئے گا
- غم جگر شکن و درد جاں ستاں دیکھا
- تیرے مژگاں ہی نہ پہلو مارتے ہیں تیرے
- کہاں ہم رہے پھر کہاں دل رہے گا
- بہار گلشن ایام ہوں میں
- گر کہیں اس کو جلوہ گر دیکھا
- تیرے حیرت زدگاں اور کہاں جاتے ہیں
- اوروں کی بات یاں بہت کم ہے
- جو وہ بہار عذار خوبی چمن میں آتا خرام کرتا
- خاک عاشق ہے جو ہووے ہے نثار دامن
- مہر خوباں خانہ افروز دل افسردہ ہے
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |