نہ غم دل نہ فکر جاں ہے یاد
Appearance
نہ غم دل نہ فکر جاں ہے یاد
ایک تیری ہی بر زباں ہے یاد
تھا جو کچھ وعدۂ وفا ہم سے
کچھ بھی وہ تم کو مہرباں ہے یاد
اگلے ملنے کی طرح بھول گئے
کیا بتاؤں تمہیں کہاں ہے یاد
ہوں میں پابند الفت صیاد
کب مجھے باغ و بوستاں ہے یاد
محو تیرے ہی رو و زلف کے ہیں
نہ ہمیں وہ نہ یہ جہاں ہے یاد
دیدہ و دل میں تو ہی بستا ہے
تجھ سوا کس کی اور یاں ہے یاد
اور کچھ آرزو نہیں بیدارؔ
ایک اس کی ہی جاوداں ہے یاد
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |