گر اسی طرح سج بنائیے گا
Appearance
گر اسی طرح سج بنائیے گا
محشر آباد کر دکھائیے گا
عمر وعدوں ہی میں گنوائیے گا
آئیے گا بھی یا نہ آئیے گا
مہرباں قدر جانیے میری
مجھ سا مخلص کہیں نہ پائیے گا
یہی قامت ہے گر یہی رفتار
حشر برپا ہی کر دکھائیے گا
یہی رونا اگر ہے اے انکھیوں
خانۂ مردماں ڈبائیے گا
ماہ رویاں کہاں تلک ہم کو
آتش ہجر میں جلائیے گا
ضبط گریہ نہ ہووے گا جوں شمع
سوز دل گر تمہیں سنایئے گا
حسن جاتا ہے خط کی آمد ہے
ہاں ہمیں کیوں نہ اب منائیے گا
مغتنم جانو ہم سے مخلص کو
ڈھونڈئیے گا تو پھر نہ پائیے گا
یہ نہ ہوگا کہ یاں سے اٹھ جاویں
ایسی سو باتیں گر سنائیے گا
ایک دو کیا ہزار سے بھی ہم
نہیں ڈرتے اگر بلائیے گا
آج جو ہو سو ہو یہی ہے عزم
تم کو ہر طرح لے کے جائیے گا
جس نے بیدارؔ دل لیا میرا
ایک دن تجھ کو بھی دکھایئے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |