Jump to content

قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہے

From Wikisource
قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہے
by میر محمدی بیدار
315216قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہےمیر محمدی بیدار

قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہے
کہہ دعا یا سلام کچھ بھی ہے

سخن مہر خواہ حرف عتاب
اس کے منہ کا کلام کچھ بھی ہے

صاف یا درد بادۂ گلگوں
ساقیٔ لالہ فام کچھ بھی ہے

کیا غم ہجر کیا سرور وصال
گزراں ہے دوام کچھ بھی ہے

اس رخ و زلف سے کہ دوں تشبیہ
خوبیٔ صبح و شام کچھ بھی ہے

یاد میں اپنے یار کے رہنا
بہتر اور اس سے کام کچھ بھی ہے

تو جو بیدارؔ یوں پھرے ہے خراب
پاس ناموس و نام کچھ بھی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.